بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسند روحانیت کے تاجداروں کا کیا کہنا، ان کے اقبال کے سورج کو نہ کبھی گہن لگتا ہے اور نہ ہی ان کا پرچم اقتدار کبھی سرنگوں ہوتا ہے۔
ان ہی روحانیت کے تاجداروں میں ایک عظیم نام “شہنشاہ ہند، غریب نواز، حضرت خواجہ سید معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالی علیہ” کا بھی ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت 530 ہجری بمقام سنجر علاقہ سیستان میں ہوئی جب کہ آپ کا وصال 6 رجب المرجب 627 ہجری بمقام اجمیر شریف میں 97 سال کی عمر میں ہوا۔
آپ کا نسب نامہ:
سید معین الدین حسن بن غیاث الدین بن سید سراج الدین بن سید عبداللہ بن سید عبدالکریم بن سید عبدالرحمن بن سید علی اکبر بن سید ابراہیم بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی المرتضیٰ {رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین}
تعلیم و تربیت:
سات سال کی عمر شریف تک آپ کی پرورش خراسان میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کا زمانہ والدِ بزرگوار کے زیرِسایہ گزرا۔ اسکے بعد سنجر کی مشہور درسگاہ سے آپ نے تفسیروحدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل فرمائی۔ 14 سال کی عمر شریف میں والد بزرگوار کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ آپکے والد کا مزارِمبارک بغداد شریف میں ہے۔
بیعت و خلافت:
شہنشاہِ ہند، خواجہ غریب نواز بغداد شریف میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے دستِ حق پربیعت سے مشرف ہوئے۔ بیس سال اپنے پیرومرشد کی خدمت میں حاضررہے، اپنے پیرومرشد کے ساتھ جب سلطانِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے توپیرومرشد نے فرمایا: “دو جہاں کے مالک کو سلام کرو۔” حضرت خواجہ غریب نواز نے انتہائی ادب و احترام کے ساتھ سلام عرض کیا۔ روضہِ پاک سے آواز آئی: “وعلیکم السلام یا قطب مشائخ بروبحر”۔ یہ جواب سُن کر پیرو مرشد خواجہ عثمان ہارونی نے سجدہِ شکر ادا کیا اور آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا: “اب تو درجہِ کمال کو پہنچ گیا۔”
بغداد سے ہندوستان:
557 ہجری میں شہنشاہِ ہند رحمۃ اللہ تعالی علیہ پہلی بار بغداد سے ہندوستان کے سفر پر روانہ ہوئے، جب سمرقند پہنچے تو وہاں ابوللیث سمرقندی کے مکان کے قریب ایک مسجد تھی جس کے محراب کے قبلہ رخ ہونے کے متعلق کچھ لوگوں کو شُبہ تھا۔ شہنشاہِ ہند خواجہ غریب نواز نے توجہ ڈالی تو نگاہوں کے سارے حجابات اُٹھ گئے اور کعبہ نظر آنے لگا۔
اجمیر میں آمد:
شہنشاہِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ عالی کے بموجب شہنشاہِ ہند خواجہ غریب نواز لاہور سے دہلی کے راستے اجمیر پہنچے۔ اجمیر پہنچ کر جب آپ نے شہر سے باہر ایک سایہ دار مقام پر درختوں کے نیچے قیام کرنا چاہا تو راجہ پرتھوی راج کے ساربانوں نے منع کیا کہ یہاں راجہ کے اُونٹ بیٹھتے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ وہاں سے یہ فرماتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ “اچھا راجہ کے اُونٹ بیٹھتے ہیں تو وہی بیٹھیں” اور اناساگر کے قریب جاکر قیام فرمایا۔
کہتے ہیں کہ شام کے وقت جب اُونٹ اپنی چراگاہوں سے واپس آئے اور اپنی جگہ پر جاکر بیٹھے تو ایسے بیٹھ گئے کہ اُٹھانے سے بھی نہ اٹھے۔ یہ دیکھ کر ساربانوں کے افسر نے راجہ کو ساری تفصیل بتائی تو راجہ نے کہا “اب اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تم لوگ جاکر اس درویش سے معافی مانگو”۔ چناچہ ساربانوں نے آپکی خدمت میں حاضر ہوکر معذرت کی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: “اچھا جائو، اُونٹ کھڑے ہوگئے”۔ آکر دیکھا تو واقعی اونٹ کھڑے تھے۔
شہنشاہِ ہند رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا یہاں قیام ہندوئوں کے لیئے بڑا صدمہ تھا۔ انہوں نے ہرممکن کوشش کی کہ آپ چلے جائیں مگر عظمتِ خداداد کے آگے کسی کی نہ چلی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ روحانی مقابلے کیلیئے سلطنت کے بڑے بڑے جادوگر اور جوگی بُلا لیئے گئے، لیکن خواجہ کی ایک تیغ اُبرو کی جنبش سے سب تڑپ تڑپ کے گھائل ہوگئے۔ یہ شہنشاہِ ہند رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی قاہرانہ قوت اور روحانی طاقت کی ایک عظیم الشان فتح تھی جس نے ہندوستان کی زمین ہلا کر رکھ دی۔
وصال شریف:
منقول ہے کہ شبِ وصال چند اولیاء اللہ نے حبیب کبریا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ علیہ سلام کسی کے انتظار میں کھڑے ہیں، فرمایا: “رحمتِ الٰہی کے اس ہجوم میں آج معین الدین کی روح آنے والی ہے، ہم اُس کے استقبال کے لیئے آئے ہیں۔”
چراغِ انجمنِ اولیاء غریب نواز،
امینِ سطوتِ خیبرکُشا غریب نواز۔
آج اجمیر شریف، ہندوستان میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہزاروں ہندو، سکھ اور دیگر مکتبہِ فکر کے لوگ جوق در جوق آپ کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور اللہ ﷻ کی عطا سے اپنی مرادیں حاصل کرتے ہیں۔